سابق ایم این اے الحاج شاہ جی گل آفریدی نے لنڈی کوتل پریس کلب میں میٹ دی پریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ضلع خیبر پہلا علاقہ ہے کہ ہم نے انضمام کے لئے اہم کردار ادا کیا لیکن تاحال انضمام کے ثمرات نہیں ملے ہیں. پی ٹی آئی حکومت سے بہت توقعات تھیں جو پوری نہیں ہوئیں اس لئے اب شکوے بھی زیادہ ہیں عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ بڑے خیبر پختون خوا کے لئے بہت کچھ کرینگے اور قبائلی اضلاع کے لئے سالانہ سو ارب روپے دینگے جو تاحال نہیں ملے ہیں الحاج شاہ جی گل نے کہا کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کے رہنماء آصف علی زرداری سے ملاقات کی اور ان کو سابق فاٹا کو این ایف سی ایوارڈ میں اپنا حصہ دینے کا وعدہ پورا کرنے کا مطالبہ کیا . انہوں نے کہا کہ عمران خان اور ان کی حکومت کی ناکامی ہے کہ وہ قبائلی اضلاع کو کچھ نہ دے سکے. بڑے حکومتی عہدیداران اور وزراء یہاں آئے جو امن کا منہ بولتا ثبوت ہے. الحاج شاہ جی گل نے کہا کہ صوبے میں ضم ہونا ہمارے فائدے کی بات ہے اور پرامن اور جمہوری طریقے سے یہ عمل انجام کو پہنچا ہم اپنا آئینی حق حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے. اب ہم اپنا حق سو ارب روپے اور مالیاتی وسائل مانگتے ہیں اور اے ڈی پی کے تحت اپنا پورا حق مانگتے ہیں ابھی تک قبائلی عوام کو کوئی فائدہ نہیں ملا ہے. سابق فاٹا میں الیکشن نہیں سیلیکشن ہوا ہے اور 25جولائی کو انتخاب کے وقت غلط فیصلے ہوئے تھے. یہ مرکزی حکومت کی ناکامی ہے کہ اب آرمی چیف تاجروں سے مزاکرات کرکے کام چلاتے ہیں. عمران خان کی وجہ سے تمام پختونوں کو نقصان ہو رہا ہے اور ابھی تک قبائلی اضلاع کے ذاتی اور سیاسی دورے نہیں کئے اور یہی حال ان کے یہاں کے ایم این ایز کا بھی ہے اور یہی سیلیکٹیڈ لوگ قومی مسائل میں اضافے کا سبب بن ریے ہیں. اب تو ہمارے وسائل پر گورنر اور وزیر اعلی کے مابین جھگڑا ہے ہم گورنر کو نہیں مانتے اور وزیر اعلی کو اختیارات کے حق میں ہیں. ابھی تک وزیر اعلی خیبر پختون خوا بھی کچھ ڈیلیور نہیں کر سکے ہمارے اپنے مسائل ہیں اس لئے تمام سرحدات کے اس پار افغانوں اورتاجروں سے ملے کہ ہماری معیشت اور حالات بہتر ہو سکے. ملاکنڈ ڈیویژن میں ٹیکس نہیں اور قبائلی اضلاع فی الحال ٹیکس سے مستثنی ہیں. خوشخبری سنا تے ہیں کہ اپنے سارے مالیاتی و دیگر حقوق لے کر دم لینگے. سپورٹس کے میدان بنیں گے اورصوبائی اسمبلی میں ہمارے اپنے نمائندے ہونگے جو حقوق کے لئے لڑینگے. حکومت کے اعلی ذمہ داران سے درخواست کی ہے کہ ہمیں اچھی وزارتیں دی جائیں جیسے معدنیات. تعلیم اور صحت کے وزراء جو قبائل کے مسائل حل کر سکیں. منصوبہ بندی تقریباً ہو چکی ہے جس کا جائزہ لیا جا رہا ہے. اب سارے محکمے اور ادارے بائومیٹرک سسٹم کے تحت چلیں گے بہت جلد طورخم تک موٹر وے پر کام کا آغاز بھی ہوگا لنڈی کوتل پریس کلب کو تعمیر کرنے پر افسوس کا اظہار کیا اپنے بھائی سینیٹر کے حوالے سے کہا کہ وہ انضمام پر خوش نہیں لیکن انضمام کے تمام مخالفین کو شکست فاش دی. کل سے این سی پی گاڑیوں پر پابندی ختم ہوگی مجھے وزیر اعلی کے مشیر کا عہدہ لینے کی پیشکش کی گئی تھی لیکن مشاورت کے بعد قبول نہیں کیا اور آئندہ صوبائی الیکشن کے لئے الحاج کارواں کے مشورے سے امیدوار کھڑا کرینگے حلقہ بندیوں پر اعتراضات ہیں اور کیس بھی جمع کیا ہے اور ہماری درست مردم شماری سابق ریکارڈ کے مطابق کی جائیں اس لئے کہ قبائلی عوام کی آبادی بڑھی ہے کم نہیں ہوئی ہے. سو ارب روپے اگر نہیں ملے تو ایک ماہ بعد عوامی احتجاجی تحریک کا آغاز کرینگے اور اسی طرح تمام بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرے کرینگے.......
No comments:
Post a Comment